Best Urdu Ghazals Collection of Jaun Elia | Shayari Jaun Elia

Jaun Elia Best Collection of urdu ghazal, john Elia best shayri in urdu hindi. Read Best Poetry by jaun elia and share with love one.

Jaun elia ghazals

Jaun Elia Poetry most famous among those readers who love to read ghazal, 2 lines poetry and shayari, poems. John elia shayari help the readers to express their feelings with anyone you love and show your affections with love one by send jaun elia poetry. 


Jub Hum Kahin Na Honge


جب ہم کہیں نہ ہوں گے تب شہر بھر میں ہوں گے
پہنچے گی جو نہ اس تک ہم اس خبر میں ہوں گے

تھک کر گریں گے جس دم بانہوں میں تیری آکر
اُس دم بھی کون جانے ہم کس سفر میں ہوں گے

اے جانِ عہدوپیماں، ہم گھر بسائیں گے ہاں
تو اپنے گھر میں ہوگا، ہم اپنے گھر میں ہوں گے

میں لے کے دل کے رشتے گھر سے نکل چکا ہوں
دیوار و دَر کے رشتے، دیوار و دَر میں ہوں گے

تجھ عکس کے سوا بھی اے حُسن وقتِ رخصت
کچھ اور عکس بھی تو اس چشمِ تر میں ہوں گے

ایسے سیراب تھے وہ ایسے تھے کچھ کہ اب بھی
میں آنکھ بند کرلوں تب بھی نظر میں ہوں گے

اس کے نقوشِ پاکو راہوں میں ڈھونڈنا کیا
جو اس کے زیرِ پا تھے وہ میرے سر میں ہوں گے

وه بیشتر ہیں جن کو کل کا خیال کم ہے
تو رُک سکے تو ہم بھی ان بیشتر میں ہوں گے

آنگن سے وہ جو پچھلے دالان تک بسے تھے
جانے وہ میرے ساۓ اب کس کھنڈر میں ہوں گے

Nayi Khawish Rachayi ja rahi hai


نئی خواہش رچائی جاری ہے
تری فرقت منائی جا رہی ہے

نبھائی تھی نہ ہم نے جانے کس
کہ اب سب سے نبھائی جا رہی ہے

ہمارے دل محلے کی گلی سے
ہماری لاش لائی جارہی ہے

کہاں لذت وہ سوزِ جستجو کی
یہاں ہر چیز پائی جا رہی ہے

خوشا احوال اپنی زند گی کا
سلیقے سے گنوائی جا رہی ہے

دریچوں سے تھا اپنے پیر ہم کو
سو خود دیمک لگائی جاری ہے

جدائی موسموں کی دھوپ سنيو
مری کیاری جلائی جا رہی ہے

مری جاں اب یہ صورت ہے کہ مجھ سے
تری عادت چھڑائی جا رہی ہے

میں پیہم ہار کے یہ سوچتا ہوں
وہ کیا شئے ہے جو ہاری جا رہی ہی 


Kisi Se Koi Khafa Bhi.. 


کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو
گلہ کرو کہ گلہ بھی نہیں رہا اب تو 

وہ کاہشیں ہیں کہ عیش جنوں تو کیا یعنی
غرور ذہناِ رسا بھی نہیں رہا اب تو

شکست ذات کا اقرار اور کیا ہو گا
کہ ادعاۓ وفا بھی نہیں رہا اب تو

چُنے ہوئے ہیں لبوں پر تیرے ہزار جواب
شکا یتوں کا مزہ بھی نہیں رہا اب تو

ہوں مبتلائے یقیں ، میری مشکلیں مت پوچھے
گمانِ عقدہ کشا بھی نہیں رہا اب تو

مرے وجود کا اب کیا سوال ہے یعنی
میں اپنے حق میں برا بھی نہیں رہا اب تو

یہی عطیہ صبحِ شبِ وصال ہے کیا
کہ سحرِ ناز و ادا بھی نہیں رہا اب تو

یعقین کر جو تری آرزو میں تھا پہلے
وہ لطف تیرے سوا بھی نہیں رہا

وہ سُکھ وہاں کہ خدا کی ہیں بخششیں کیا کیا
یہاں یہ دُکھ کہ خدا بھی نہیں رہا اب تو 

Tumse Bhi Ab to ja.. 


تم سے بھی اب تو جا چکا ہوں میں
دور ہا دور آ چکا ہو ں میں 

یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں

اس گانِ گماں کے عالم میں 
آخرش کیا بھلا چُکا ہوں میں 

اب ببر شیر اشتها ہے میری
شاعروں کو تو کھا چکا ہوں میں

میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں
شہر کے شہر ڈھا چکا ہوں میں

حال ہے اک عجب فراغت کا
اپنا ہر غم منا چکا ہوں میں

لوگ کہتے ہیں میں نے جوگ ليا
اور دھونی رَما چُکا ہوں میں

نہیں املا درست غالب کا
شیفتہ کو بتا چُکا ہوں میں 



For read more jaun elia poetry click below link.. 









Post a Comment

0 Comments